سوال: کبا فرماتے علمائے دیوبند مسئلہ ندائے بالغیب کے بارے میں، بایں طور که فرقه بریلویه کا کہنا ہے که نبی صله الله علیه وسلم کو نداء کرنا ضمائر خطاب کے ساتھ اور حرف ندا ء کے ساتھ جائز ہے
، جبکه علماء دیوبند کی طرف سے یه جواب ملتا ہے که نداء بالغیب جائز نہیں پھر دیوبند پر بریلوی کی طرف سے اشکال وارد ہوتا ہے که اگر جائز نہیں تو تم قرآن میں "یا ایھا النبی " یا ایھا المزمل "وغیره اور نماز میں "السلام علیک ایھا النبی " (ضمیر خطاب کے ساتھ) کیوں پڑھتے ہیں؟ دیوبند کی طرف سے یه جواب ملتا ہے که ہم اس کوحکایۃ پڑھتے ہیں اور اس طرح پڑھنا جائز ہے، یه جواب قرآن کریم میں مذکوره مثالوں (یا ایھا المزمل وغیرہ ) میں تو سمجھ آتا ہے لیکن نماز میں "السلام علیک ایھا النبی"کے بارے میں سمجھ نہیں آتا، اس لئے که اس کو حکایۃ جاننے کی دو صورتیں ہیں اور دونوں باطل ہیں (1)یه که ہم پوری کے پوری نماز کو حکایۃ پڑھنا مانیں، (2)یه که صرف "السلام علیک الخ "ایک کلام کوحکایۃ مانیں ، پہلی صورت تو اس لئے باطل ہے که اس سے نماز کا مقصد فوت ہو جاتا ہے کیونکه نماز کا مقصد الله کی حمد وتسبیح بیان کرنا اس طرح ہے که گویا انسان اس کے سامنے ہیں اور اس طرح آیات" ایاک نعبد" وغیره اور آخر میں جو دعا اپنے لئے ہوتی ہے یه سب اس طرح ہوتا ہے گویا بنده رب سے ہم کلام ہو، یہ حکایۃ نہیں پڑھاجاتا، دوسری صورت اس لئے باطل ہے که یه ممکن نہیں که قبل اور مابعد کا دوسرا کلام حکایۃ نه ہو اور درمیان میں صرف ایک جملے کو حکایۃ جانا جائے۔
الجواب وبالله التوفيق: یا محمد اور یا رسول الله کہنے والا اگر یه سمجھ کر پکارتا ہے که حضور صلی الله علیه وسلم میری آواز ہر وقت اور ہر جگه سے سنتے ہیں تو یه ناجائز اور غلط ہے اور اگر اس خیال سے که میرے یه الفاظ حضور صلی الله علیه وسلم کو فرشتے پہنچا دیتے ہیں تو درودوسلام کے ساتھ یه خیال درست ہے، لیکن بغیر درودوسلام کے اس عقیده اور خیال کی صحت کے لئے کوئی دلیل شرعی نہیں، اور اگر محض فرط محبت میں بغیر اس عقیدے کے کہتا ہے که حضور صلی الله علیه وسلم سنتے ہیں، یا حضور صلی الله علیه وسلم کو یه الفاظ پہنچائے جاتے ہیں تو فی نفسه مباح ہے، مگر چونکه اکثر عوام اس بدعقیدگی میں مبتلا ہیں که حضور صلی الله علیه وسلم ہر جگه حاضر وناظر ہیں اور ہر جگه سے یا محمد ، یا رسول الله کہنے والے کی آواز سن لیتے ہیں ایسے موہوم الفاظ کا نه کہنا اور لوگوں کو ان کے استعمال سے منع کرنا ہی احوط ہے، قرآن پاک کے الفاظ "یا ایھالمزمل"، "یا ایھالنبی"یا نماز میں التحیات میں "السلام علیک ایھاالنبی"ان سے حضور صلی الله علیه وسلم کے حاضر وناظر ہونے پر استدلال کرنا صحیح نہیں، "یا ایھا المزمل" اور قرآن پاک کے تمام خطابات حالت حیات میں نازل ہوئے اور بعد وفات حکایۃپڑھے جاتے ہیں، کیونکه قرآن پاک کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک نقطه واجب الحفاظت ہے، اور تشہد کا خطاب سلام کے ساتھ ہے، جو فرشتے حضور صلی الله علیه وسلم تک پہنچاتے ہیں، اگر "یا رسول الله "کہنے والے کا یه عقیده ہو که حضورؐ ہر جگه حاضر وناظر ہیں تو یه شرک ہے البته روضه اقدس پر حاضر ہو کر "یا رسول اللہ" کہنا درست ہے، جس طرح شرک سے بچنا ضروری ہے اس طرح شائبه شرک سے بچنا بھی ضروری ہے۔
سوال میں جس اشکال کا تذکره کیا گیا ہے یعنی الله کی تسبیح وعبادت اور حکایت کے درمیان منافات کو ظاہر کیا گیا ہے اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے کیونکه جو عبادت ہم کرتے ہیں وه تو ہمیں اسلام نے تعلیم فرمائی ہے اس میں جو طریقے ہیں اس کو ہم اسی طرح نقل کریں گے اور نماز وغیره میں دھان الله کی طرف کریں گے تو جو عبادت ہمیں جس طرح سکھائی گئی ہے ہم اسکو اسی طرح ادا کرتے جائیں اور دھان بھی الله کی طرف ہو تو اس میں کوئی منافات نہیں ہے، دونوں جمع ہو سکتے ہیں۔
کفایۃ المفتی، ج: ۱ /ص: ۱۶۶، فتاوی محمودیۃ، ج: ۱ /ص: ۳۶۵
قوله علیه السلام: ان الله ملائکتد، سیاحین فی الارض یبلغونی من امتی السلام. (انسائی، کتاب الصلوۃ، باب التسلیم علی النبی صلی الله علیه وسلم، ۱/ ۱۴۳، ط سعید)
ولقوله علیه السلام: فمن اتق الشبھات فقد استرالدینه وعرضه ومن وقع فی الشبھات وقع فی الحرام. (بخاری، کتاب الایمان، باب فضل من استبرا لدینه ج ۱ ص ۱۲۸ ط سعید)
قال: بن الھمام رحمه الله: روی ابو حنیفه رضی الله عنه فی مسند، عن ابن عمر رضی عنھا قال : من السنة ان ثاتی قبر النبی صلی الله علیه وسلم من قبل القبلة، وتجعل ظھرک الی القبلة وتستقبل القبر بوجھک ثم تقول: السلام علیک ایھا النبی ورحمة الله وبرکاته. وعلی ماذکرنایکون الواقف مستقبلاً وجھه علیه السلام وبصره فیکون اولی‘ثه یقول فی موقفہ: السلام علیک یا رسول الله ...
فتح القدیر، کتاب الحج مسائل منثورہ، خاتمة متمسل علی ثلاثة مقاصد، المقصد الثالث فی زیاده قبر النبی علیه اسلام: (۳/۱۸۰