سوال: کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیان دین اس مسئلے کے متعلق کہ ہماری مسجد کا امام (جو که کسی بھی سرکاری اور غیر سرکاری تعلیمی ادار ے کا فارغ اور سندیافته نہیں ہے
) عذاب قبر کا قطعی انکار کرتا ہے اور عالم برزخ کا بھی انکار کرتا ہے اس کا کہنا ہے که قرآن پاک میں کسی بھی جگه عذاب قبر کا ذکر نہیں ہے بلکه جہاں آخرت کی ذکر ہےوہاں پر بھی عذاب قبر کےمتعلق کوئی ذکر نہیں اور وه یه بھی کہتا که عذاب قبر کی احادیث کو میں نہیں مانتا کیونکه وہ سب احادیث غیر معتبر ہے اور بخاری شریف میں بہت سی احادیث موضوع ہیں، اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ ایسے امام کے پیچھے نماز جائز ہے یا نہیں؟ اور ایسے امام کو مسجد سے ہٹا دینا چاہیے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت والجماعت مسلک حنفی کے مطابق تحریر فرمائیں۔
الجواب وبالله التوفيق: پہلے مسئله عذاب کی کسی قدر وضاحت کردیتے ہیں اس کے بعد مذکوره سوالات کے جوابات دئیے جائیں گے۔
جمله اہل سنت والجماعت حنفی، شافعی، حنبلی، مالکی اس عقیده پر متفق ہیں که قبر اور برزخ میں اہل ایمان اور اصحاب طاعات کو لذت وسرور نصیب ہوتا ہے اور کفار ومنافقین اور گنہگاروں کو عذاب وتکلیف ملتی ہیں، اس میں کسی شک وشبه کی کوئی گنجائش نہیں ہے قرآن وسنت اور اجماع کے صریح دلائل کے پیش نظر یه عقیده اتنا مضبوط ہے که حضرات فقہاء کرام کا ذمه دارگروه عذاب قبر کے منکر کو کافر کہتا ہے، اگرچه وه کسی کو کافرقرار دینے میں بڑا محتاط ہے، اور ان کا یه فیصله ہے که اگر کسی ایک کلمه میں مثلاً سو معانی کے احتمال بھی پیدا ہو سکتا ہو جن میں نانوے پہلو کفر کےہوں اور صرف ایک پہلو اسلام کی پیدا ہو تو قائل کی تکفیر نہیں کی جائیگی کیونکه ہوسکتا ہے که قائل کا اسلام والا پہلو مراد ہو، ہاں اگر قائل کفر والی پہلو متعین کر لے، تو پھر کفر کا فتویٰ لگا جائے گا، اب عذاب قبر کے مسئله کے متعلق حضرات فقہائے کرام کی شہادتیں اور عبارات ملاحظه ہوں:
علامه طاہربن احمد الحنفی فرماتےہیں :" ولا تجوز الصلوۃخلف من ینکر شفاعته النبیؐ دینکر کو اماً کا تبین وعذاب القبر کذامن ینکر الرویه لا نه کافر"
علامه ابن ھمام شارح ہدایه الحنفی اپنی کتاب فتح القدیر (جلد نمبر 1 صفحه نمبر 247 )میں لکھتے ہیں: " ولا تجوز الصلوۃ خلف منکر الشفاعة ... وعذاب القبر… لانه کافرلتوارث هذه الا مورعن الشارح صلی الله علیه وسلم"
کہ شفاعت رسول صلی الله علیه وسلم ، الله تعالیٰ کے دیدار اورعذاب قبر کا انکار کرنے والے کی اقتداء میں نماز درست نہیں وه کافر ہے کیونکه یه امور شارع علیه السلام سے تو اثر سے ثابت ہیں۔
فتاوی عالمگیری میں انکار عذاب قبر کو کفر لکھا ہے۔
امام تفسیر علامه قبطی ارشاد فرماتے ہیں:" فاعلمو اایھاالا خوان ان عذاب القبرو نعیمه حق کما صرحت به الا حاریث الصحیحه ولکن الله تعالیٰ یا خذ بابصار الخلائق واساعهم من الجن والانس عن رویۃ عذاب القبر ومن مسلک فی ذالک فہو ملحد".
اے بھائیو تم بخوبی جان لو که قبر کا عذاب اور اس کی راحت برحق ہے جیسا که صحیح احادیث صراحت سے اس پر دلالت کرتی ہیں لیکن الله تعالیٰ نے اپنی مکلف مخلوق میں سے جنوں اور انسانوں کی آنکھوں اور کانوں سے قبر کے عذاب اور راحت کو اوجھل رکھا ہے کیونکه حکمت الٰہی کا تقاضا بھی یہی ہے اور جو شخص اس کا انکار کرے تو وه ملحد ہے۔
علامه ابو شکورسالمی اپنی کتاب" تمہید" میں لکھتے ہیں "فاما عذاب القبر للمومنین من الجائزات وللکافدین من الواجبات و من انکرھذا یصیر کافراً والله اعلم "
عذاب قبر مومنوں کے لئے جائز اور کافروں کے لئے واجب ہے، جو اس کا منکر ہو وه کافر ہے ۔والله تعالیٰ اعلم
مولانا عبدالعلی الحنفی (المتوفی 1235ھ) اپنے رساله میں لکھتے ہیں :"منکر عذاب القبر کافر" عذاب قبر کا منکر کافر ہے۔
جس طرح ذخیره کتب حدیث میں صحیح اور صریح احادیث میں جن کا احصاء بھی مشکل ہے بڑی وضاحت اور صراحت کے ساتھ قبرکی راحت اور عذاب کا ذکر ہے، اس طرح قرآن کریم میں بھی متعدد آیات میں صاف مذکور ہے مگر بعض لوگ اپنی بدقسمتی سے محض اپنی نارسا عقل اور مادی طبیعت کی زور سے قرآن وحدیث کے اوله میں اپنی رائے استعمال کرکے ایک متفق علیه اور مسلمہ مسئله میں اختلاف پیدا کرتے ہیں اور عوام الناس کے ذہنوں میں خلفشار کا باعث بنتے ہیں لیکن نصوص قطعیه اس باطل نظریه کی تردید کرتی ہے، چنانچه ہم اب قرآنی اوله سے اس دعوے کو مبرہن کرتے ہیں که جسم کے ساتھ روح کا تعلق ہوتا ہے اور عذاب قبر و برزخ برحق ہے چنانچه سورہ انعام میں اللہ کریم فرماتے ہیں:
وَلَوْ تَرَى إِذْ الظَّالِمُونَ فِي غَمَرَاتِ الْمَوْتِ وَالْمَلائِكَةُ بَاسِطُوا أَيْدِيهِمْ أَخْرِجُوا أَنفُسَكُمْ اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ بِمَا كُنتُمْ تَقُولُونَ عَلَى اللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ وَكُنتُمْ عَنْ آيَاتِهِ تَسْتَكْبِرُونَ. (الانعام :93)
ترجمه: اگر تو دیکھے جس وقت ظالم موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے، اور کہیں گے که نکالو اپنی جانیں آج کے دن تمہیں بدله ملے گا ذلت کے عذاب کا اس سبب سے که تم الله تعالیٰ پر جھوٹی تہمتیں باندھتے تھے اور اس کی آیتوں سے تکبر کیا کرتے تھے۔
نفس اور روح کےنكلنے کے بعد " اَلْيَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُونِ " میں جس عذاب کو ذکر کیا گیا ہے یہی اصطلاح شریعت میں عذاب قبر اور عذاب برزخ کہلاتا ہے اگر مرنے کے بعد فوری ہی عذاب نه ہو تو (معاذ اللہ ) یه بات تو جھوٹی ہو جائے گی، که آج کے دن تم لوگوں کو ذلت والا عذاب دیا جائے گا۔ (کتاب الروح)
وَلَوْ تَرَى إِذْ يَتَوَفَّى الَّذِينَ كَفَرُوا الْمَلائِكَةُ يَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَأَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِيقِ (الانفال:50) ترجمه : اگر تو دیکھے كه جس وقت جان قبض کرتے ہیں فرشتے کافروں کی اور مارتے ہیں ان کےچہرے اور پشتیں اور کہتے ہیں چکھو عذاب جلنے کا۔
مرنے کے بعد عذاب الحریق جو کافروں کو چھکایا جائے گا وہی عذاب قبر اور عذاب برزخ ہے۔
وَحَاقَ بِآلِ فِرْعَوْنَ سُوءُ الْعَذَابِ ۔ النَّارُ يُعْرَضُونَ عَلَيْهَا غُدُوّاً وَعَشِيّاً وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ أَدْخِلُوا آلَ فِرْعَوْنَ أَشَدَّ الْعَذَابِ (غافر:45-46)
ترجمہ : اور گھیر لیا فرعونیوں کوبری طرح کے عذاب نے، وه آگ ہے پیش کیا جاتا ہے اس پر صبح و شام اور جس دن قیامت قائم ہوگی حکم ہو گا که داخل کرو فرعونیوں کو سخت سے سخت عذاب میں۔
اس ارشاد سے صاف طور پر معلوم ہوا که ہمیشگی کے ساتھ صبح وشام فرعونیوں پر آگ کے عذاب کو پیش کیا جاتا ہے اور وہی عذاب قبر اورعذاب برزخ کہلاتا ہے۔ کیونکه قیامت کا عذاب تو " وَيَوْمَ تَقُومُ السَّاعَةُ "کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے، جو اشد العذاب ہو گا، اور جو حکم فرعونیوں کا ہے وہی حکم تمام کفار اور مشرکین کا ہے۔
علامه حافظ عماد الدین بن کثیر الشافعی (التوفی 774ھ )اپنی مشہور تفسیر "تفسیر بن کثیر "میں اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:" وھذه الآیة اصل کبیر فی استدلال اھل السنة علی عذاب البرزخ فی القبور"
حضرت نوح علیه السلام کی نافرمان اور مجرم قوم کا ذکر کرتے ہوئے الله تعالیٰ فرماتے ہیں:
مِمَّا خَطِيئَاتِهِمْ أُغْرِقُوا فَأُدْخِلُوا نَاراً فَلَمْ يَجِدُوا لَهُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ أَنْصَاراً (نوح :25)
ترجمه : بوجه اپنے گناہوں کے وه غرق کئے گئے، پس ڈالے گئے آگ میں پھر نه پایا انہوں نے اپنے لئے الله تعالیٰ کے سوا مدد گار ۔
اس آیت کریمه سے معلوم ہوا که حضرت نوح علیه السلام کی مجرم قوم غرقاب ہوئے بھی فوراً عذاب میں مبتلا ہو گئی کیونکه " أُغْرِقُوا " ما ضی کا صیغه ہے اور اس طرح " فَأُدْخِلُوا "بھی ماضی ہے اور اس پر فاداخل ہے جو تعقیب بلا فصل کے لئے آتا ہے، اور مرنے کے فوراً بعد جو عذاب ہوتا ہے اسکا نام عذاب قبر ہے ان آیات سے معلوم ہوا که اصل عذاب قبر ثابت ہے ہاں اس کی تشریح تفسیر جناب رسول الله صلی الله علیه وسلم نے کی ہے۔
گفته او گفته الله بود گرچه از حلقوم عبد الله بود
عذاب قبر کے متعلق احادیث :
عذاب قبر پر بہت کے ثبوت پر بہت سے احادیث موجود ہیں بعض محدثین نے عذاب قبر پر باقاعده عنوانات قائم کئے ہیں جیسے مشکوۃ میں ہے "باب اثباب عذاب القبر" ہم یہاں اثبات عذاب قبر پر چند احادیث ذکر کردیتے ہیں :
(1) بخاری، مسلم ، مشکوۃ اور موارد الظمان (ص:199) میں حضرت عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے که حضور اکرم صلی الله علیه وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا که ان دونوں کو عذاب ہو رہا ہے لیکن کسی بڑے گناه میں عذاب نہیں ہو رہا ہے ، ایک پیشاب کی چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا، اور دوسرا چغلی کرتا تھا۔
(2) مشکوۃ مسلم اور موار دالظمان میں حضرت زید بن ثابت سے روایت ہے که آنحضرت صلی الله علیه وسلم خچر پر سوار ہو کر بنو نجار کے ایک باغ میں جا رہے تھے یکا یک خچر بدکا قریب تھا که حضور اکرم صلی الله علیه وسلم کو گرا دیتا معلوم ہوا که وہان پانچ یا چھ قبریں تھیں حضور اکرم صلی الله علیه وسلم نے پوچھا یه کن کی قبریں ہیں کوئی جانتا ہے؟ ایک شخص نے عرض کیا کہ یارسول اللہ یہ دونوں حالت شرک میں مرے ہیں، آپ نے فرمایا اس امت کا قبروں میں امتحان ہوتا ہے، اگر مجھے یه ڈر نه ہوتا که تم اپنے مردوں کو دفن کرنا چھوڑ دو گے تو میں الله تعالیٰ سے دعا کرتا که جو عذاب قبر میں سنتا ہوں وه تمہیں بھی سنادے۔
(3) بخاری ، مسلم، مسند احمد مشکوۃ میں حضرت انس بن مالک رضی الله عنه سے طویل حدیث مروی ہےجس ميں نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
"ویضرب بمطارق من جدید ضربة فیصیح صیحة یسمعها من یلبه غیر الثقلین"
منافق کو لوہے کے ہتھوڑوں سے سختی سے مارا جاتا ہے حتی که جن وانس کے علاوه قریب کے تمام مخلوق اس كے چیخوں کو سنتی ہے ۔
یہ چند احادیث بطور نمونہ کے ذکر کردیئے ہیں وگرنه اس مسئله پر سینکڑوں احادیث نقل کی جا سکتی ہیں۔
قبر کا حقیقی مفہوم :
لفظ قبر حقیقۃً اس گڑھے پر اطلاق کیا جاتا ہے جس میں میت کو دفن کیا جاتا ہے اور جس میں میت کا جسد عنصری رکھا جاتا ہے جيسے ارشاد خداوندی ہے :
"اَفَلَا يَعْلَمُ إِذَابُعْثِرَ مَافِي الْقُبُوْرِ (العدیت:9)
بھلا کیا وہ وقت اسے معلوم نہیں ہے جب قبروں میں جو کچھ ہے اسےباہر بکھیردیا جائے گا ۔
اور احادیث سے بھی یہی پته چلتا ہے که یہی گڑھا ہی مراد ہے، لیکن قبر کا ایک مجازی مفہوم بھی ہے مجازی معنی کے اعتبار سے قبر بررزخ ، اعلی علین اور سجین کے اس مقام کا نام بھی ہے جو نیکوں اور بدوں کی ارواح کا مستقر ہے اور ایسے لوگ جوآگ میں جل کر راک ہو جاتے ہیں یا دریا برد ہو جاتے ہیں یا اسےکوئی جانور کھا لیتا ہے، اور قبر میں دفن کرنے کی نوبت نہیں آتی تو ان کے لئے وہی مقام مستقر ہے وہی قبر ہے اور وہی کل راحت وعذاب ہے علامه قرطبی فرماتے ہیں "وقداجمع اهل الکشف " کہ اس پراهل کشف کا اجماع ہے(مختصر تذکره قرطبی، ص: 36) یہی بات حافظ بن القیم الحنبلی نے کی ہے (کتاب الروح ،ص: 71 ) اور جلال الدین سیوطی شافعی بھی شرح الصدور میں یہی بات لکھتے ہیں (ص: 59)
مندرجه بالا تفصیل سے عذاب قبر کا مسئله سمجھ میں آگیا ہو گا انشاء الله اب استفتاء میں ذکر کردہ دیگر سوالات کے جوابات ملاحظه فرمائیں :
(1) اگر واقعی طورپر یه امام عذاب قبر کا منکر ہے تو اس کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز ہے، جتنی نمازیں ایسی حالت میں ان کے پیچھے پڑھی گئی ہے ان کا اعادہ لازم ہے ۔
(2) ایسے شخص کو مسجد سے ہٹانا لازم ہے اور اگر وه علی الاعلان تمام مقتدیوں کے سامنے توبه کرے اور اس عقیدے کا انکار کرے جو منکرین حدیث نے گھڑ دیا ہے ، اور عذاب قبر کے منکر کو کافر کہے تو اس کو پھر امامت سے نہیں ہٹانا چاہیے عذاب قبر کے اثبات کا عقیده صرف اہل سنت والجماعت حنفی مسلک کا نہیں بلکه مذاہب اربعه کا اجماعی مسئله ہے ۔ فقط والله تعالیٰ اعلم