سوال: کیافرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلے کے بارےمیں کہ کیا نبی صلی اللّٰه علیه وسلم نے الله تعالیٰ کو دیکھا هے؟
الجواب وبالله التوفيق : اس بارے میں صحابه کرام رضی الله عنهم کے دور سے اختلاف چلا آرها هے، بعض صحابه کی رائے یه هے که حضور صلی الله علیه وسلم نے الله تعالیٰ کو اپنی ان آنکھوں سے نهیں دیکھا هے، ان کی دلیل قرآن کریم کی یه آیت هے۔ " لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ…"که نگاهیں اس کا احاطه نهیں کرسکتیں، لیکن جمهور صحابه اور تابعین کی رائے اور راحج قول یهی هے که حضور صلی الله علیه وسلم نے جسمانی آنکھوں سے بھی اور دل کی آنکھوں سے بھی الله تعالیٰ کو دیکھا هے، کیوں که خود حضور صلی الله علیه وسلم سے پوچھا گیا که کیا آپ صلی الله علیه وسلم نے اپنے رب کو دیکھا؟ تو آپ صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: هاں!"رَأَیْتُ رَبِّيْ عَزَّ وَجَلَّ"۔ نیز طبرانی میں حضرت ابن عباس کا قول منقول هے:"رَاٰهُ مَرَّتَیْنِ، مَـرَّةً بِقَلْبِه وَمَرَّةً بِبَصَرِهٖ " … که حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے رب کو دیکھا دل سےبھی اور آنکھ سے بھی، یهاں "مَرَّتَیْن" سے مراد دو مرتبه دیکھنا نهیں هے، بلکه مطلب یه هے که حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے رب کو دونوں طرح سے دیکھا، دل کی آنکھوں سے بھی اور سر کی آنکھوں سے بھی، علاوه ازیں جب حضرت ابن عباس رضی الله عنه سے پوچھا گیا که حضور صلی الله علیه وسلم نے اپنے رب کو کیسے دیکھا؟ قرآن میں تو هے "لَاتُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُ " نگاهیں اس کا حاطه نهیں کرسکتیں؟ تو حضرت ابن عباس رضی الله عنه نے جواب دیا:"وَیْحَکَ ذَاکَ إذْا تَجَلّٰی بِنُوْرِ الَّذِيْ هو نُوْرُه"تیرا بھلا هو وه تو اس طرح نگاهیں نهیں دیکھ سکتیں که الله تعالیٰ کا مکمل ادراک کریں، اس کا کامل احاطه کریں۔
عبدالله بن شقیق رحمه الله کهتے هیں: میں نے حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنه سے کها: اگر میں نے رسول الله ﷺ کی زیارت کی هوتی تو میں نے آپ ﷺ سے ضرور پوچھا هوتا ، انهوں نے پوچھا :تم رسول الله ﷺ سے کیا بات پوچھتے ؟ میں نے کها: میں پوچھتاکه کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا تھا ؟ تو حضرت ابو ذر رضی الله عنه نے کها : یه بات تومیں نے آپ ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ نے فرمایا که میں نے (اپنی آنکھوں سے ) نور ( کے حجاب) کو دیکھا تھا۔
معلوم هوا که اس طرح دیکھنا که نگاهیں مکمل ادراک کریں جیسے جنت میں الله تعالیٰ نصیب کریں گے، ایسا دنیا میں کوئی نهیں دیکھ سکتا، هاں فی الجمله حق تعالیٰ شانه کو دیکھنا ممکن هے ،اور یهی رؤیت سیدنا محمد رسول الله ﷺ کو شبِ معراج میں میسر هوئی، یه آپ صلی الله علیه وسلم کی ایسی خصوصیت هے جس میں آپ کا کوئی شریک نهیں، لهٰذا اس صورت میں کوئی اختلاف نهیں رها، تمام روایات میں بھی تطبیق هو جاتی هے۔
مروزی سے نقل کیا گیا هے که میں نے امام احمد سے کها: حضرت عائشه رضی الله عنه سے مروی هیں، وه فرماتی هیں که جوشخص یه سمجھے که محمد صلی الله علیه وسلم نے اپنے رب کو دیکھا تو اس نے الله پر بڑا جھوٹ بولا هے ، حضرت عائشه رضی الله عنها کی اس حدیث پر لوگ بڑے شش وپنج میں هیں، حضرت عائشه رضی الله عنها کی اس حدیث کا کس دلیل سے جواب دیا جائے؟ (اوپر روایات کی تطبیق سے یه جواب مفهوم هوگیا که اس سے مراد الله تعالیٰ کو کامل ادراک اور سارے علم کے ساتھ جان لینے کی نفی هے) حضرت امام احمد رحمه الله نے جواب دیا که حضرت عائشه رضی الله عنها کی اس حدیث کا جواب خود حضور صلی الله علیه وسلم کے ارشاد میں موجود هے، آپ صلی الله علیه وسلم کا قول هے:" رَئَیْتُ رَبِّیْ عَزَّوَجَلَّ".
اوپر روایات اور تطبیق سے یه بات واضح هوگئی که الله کے رسول الله علیه وسلم نے اپنے رب کو دیکھا هے، هاں کامل ادراک کے ساتھ نهیں دیکھا، اس لیے که اس طرح کا دیدار دنیا میں ممکن نهیں، یه دیدار الله تعالیٰ جنت میں کروائیں گے۔ البته فی الجمله دیکھنے میں کوئی اشکال نهیں، اس طرح کا دیدار الله کے رسول الله علیه وسلم کوالله نے کروایا، جمهور صحابه اور تابعین کا یهی مذهب هے، اورمحققین کا راحج قول یهی هے که آپ صلی الله علیه وسلم نے سرکی آنکھوں سے الله کو دیکھا هے۔ فقط والله اعلم